Home
Aatish-e-Be-Naam: (Ghazals, Poetry)

Aatish-e-Be-Naam: (Ghazals, Poetry) in Bloomington, MN
Current price: $29.99
Loading Inventory...
Size: OS
There is a kind of flow and fluidity in Sahib Hyderabadi's ghazals. Another characteristic is his balanced attitude. A moderate creative temperament has created restraint and balance everywhere in his words. His poetry is also a poetry of ethics and cultural values. Therefore, his poetry also teaches moral points, the steadfastness of human character, and the lesson of truth and honesty. He has unconsciously felt the anguish and anxiety of his time, and along with the grief of his life, the throbs of grief are also heard in his poetry. Feeling the importance of accuracy of language and expression and art in thought, Sahib Hyderabadi is also committed to preserving it. He has traveled a long journey of poetry with great confidence and keeping the tradition of ghazal alive. This book "Aatish-e-Be-Naam (Nameless Fire)" is a collection of selected Ghazals by Sahib Hyderabadi.
/
صاحب حیدرآبادی کی غزلوں میں ایک قسم کا بہاؤ اور روانی کی سی کیفیت ہے۔ دوسرا وصف ان کا متوازن رویہ ہے۔ معتدل تخلیقی مزاج نے ان کے کلام میں ہر جگہ ضبط و توازن پیدا کر رکھا ہے۔ ان کی شاعری اخلاق اور تہذیبی اقدار کی بھی شاعری ہے۔ لہذا ان کی شاعری میں اخلاقی نکات، انسانی کردار کی استقامت اور حق و صداقت کا درس بھی ملتا ہے۔ اپنے زمانے کے کرب اور اضطراب کو انہوں نے غیرشعوری طور پر جو محسوس کیا ہے تو غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کی دھڑکنیں بھی ان کی شاعری میں سنائی دیتی ہیں۔ صاحب حیدرآبادی زبان و بیان کی صحت اور فکر میں فن کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کی پاسداری پر کاربند بھی ہیں۔ انہوں نے شاعری کا طویل سفر بڑے اعتماد کے ساتھ اور غزل کی روایت کا زندہ رکھتے ہوئے طے کیا ہے۔
/
صاحب حیدرآبادی کی غزلوں میں ایک قسم کا بہاؤ اور روانی کی سی کیفیت ہے۔ دوسرا وصف ان کا متوازن رویہ ہے۔ معتدل تخلیقی مزاج نے ان کے کلام میں ہر جگہ ضبط و توازن پیدا کر رکھا ہے۔ ان کی شاعری اخلاق اور تہذیبی اقدار کی بھی شاعری ہے۔ لہذا ان کی شاعری میں اخلاقی نکات، انسانی کردار کی استقامت اور حق و صداقت کا درس بھی ملتا ہے۔ اپنے زمانے کے کرب اور اضطراب کو انہوں نے غیرشعوری طور پر جو محسوس کیا ہے تو غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کی دھڑکنیں بھی ان کی شاعری میں سنائی دیتی ہیں۔ صاحب حیدرآبادی زبان و بیان کی صحت اور فکر میں فن کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کی پاسداری پر کاربند بھی ہیں۔ انہوں نے شاعری کا طویل سفر بڑے اعتماد کے ساتھ اور غزل کی روایت کا زندہ رکھتے ہوئے طے کیا ہے۔